Wednesday, March 12, 2008
سیاسی گھرانوں کی خواتین پھر اسمبلیوں میں
الیکشن کمیشن کی طرف سے خواتین اور مخصوص نشستوں پر کامیاب امیدواروں کے نوٹیفکیشن کے بعد پنجاب میں مسلم لیگ (ن) 165، سندھ میں پیپلزپارٹی 88، سرحد میں عوامی نیشنل پارٹی 46 اور صوبہ بلوچستان میں پاکستان مسلم لیگ (ق) 20، نشستوں کے ساتھ سرفہرست ہیں۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ پارٹی پوزیشن کے مطابق پنجاب اسمبلی کی 365 نشستوں کے نتائج کے مطابق مسلم لیگ (ن) کو 104 عام نشستیں حاصل ہوئیں، 27 آزاد امیدواروں نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کی جبکہ خواتین کی 70 اور اقلیتوں کی 4 نشستیں مسلم لیگ (ن) کے حصے میں آئیں اس طرح اسمبلی میں اس کے اراکین کی تعداد 165 ہو گئی ہے۔ پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینز کی نشستوں کی تعداد 196، پاکستان مسلم لیگ (ق) 86، متحدہ مجلس عمل 2، فنکشنل 4 جبکہ دو آزاد امیدوار ہیں۔ صوبہ سندھ میں کل 159 نشستوں سے پیپلزپارٹی 88 نشستوں کے ساتھ اکثریتی پارٹی بن کر سامنے آئی ہے۔ اسے عام نشستوں میں سے 67، خواتین کی 16 اور اقلیتوں کی 5 نشستیں ملیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کے اسمبلی میں اراکین کی تعداد 51 ہے، پاکستان مسلم لیگ (ق) 9، فنکشنل 9، نیشنل پیپلزپارٹی 2، صوبہ سرحد سے عوامی نیشنل پارٹی 46 نشستوں کے ساتھ سرفہرست ہے، اسے عام نشستوں میں 18 فروری کو 31 نشستیں ملین جبکہ خواتین کی 9 اور 5 آزاد اراکین نے بھی اے این پی میں شمولیت اختیار کی جبکہ اقلیتوں کی ایک نشست بھی اس کے حصے میں آئی۔ پیپلزپارٹی کو صوبے میں 30، متحدہ مجلس عمل 14، مسلم لیگ (ن) 9، پیپلزپارٹی شیرپائو 7، پاکستان مسلم لیگ (ق) 5 جبکہ چھ آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ بلوچستان سے 63 نشستوں میں سے مسلم لیگ (ق) کو 20 نشستیں ملی ہیں اسے 18 فروری کو 15 جنرل نشستیں ملیں جبکہ خواتین کی چار اور اقلیتوں کی ایک نشست ملی۔ پیپلزپارٹی کو 11، عوامی نیشنل پارٹی 4، ایم ایم اے 10، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی 7 اور نیشنل پارٹی کی ایک نشست ہے جبکہ 10 آزاد امیدواروں نے کسی جماعت میں شمولیت اختیار نہیں کی۔ چاروں صوبوں سے پاکستان پیپلزپارٹی کو 235، پاکستان مسلم لیگ (ن) کو 174، پاکستان مسلم لیگ (ق) کو 120، ایم کیو ایم کو 51، عوامی نیشنل پارٹی کو 50، ایم ایم اے کو 26، فنکشنل 13، بی این پی عوامی 7، نیشنل پارٹی ایک، شیرپائو کو 7 صوبائی نشستیں حاصل ہوئیں۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری ہونے والے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے نوٹیفکیشن کے مطابق اے این پی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی سے منتخب ہونے والی تین اور سرحد اسمبلی کے لئے منتخب ہونے والی 9 خواتین کا تعلق صوبہ سرحد کے مختلف اضلاع سے ہے ۔منتخب ہونے والی خواتین میں یاسمین پیر محمد خان اس سے قبل بھی سرحد اسمبلی کی رکن رہ چکی ہیں ۔ وہ 1954ء میں ضلع چارسدہ کے علاقے اتمانزئی میں پیدا ہوئیں ۔ وہ خدائی خدمت گار تحریک کے رہنما پیر محمد خان کی صاحبزادی ہیں اور ڈاکٹر اسماعیل جن کا تعلق ضلع سوات سے ہے کی اہلیہ ہیں ۔اے این پی کی ستارہ عمران جنہیں حقوق و ترقی نسواں کی وزارت بھی دی گئی ہے پارٹی کے شعبہ خواتین کی صوبائی کوآرڈینیٹر ہیں اور 12 سالوں سے پارٹی سے وابستہ ہیں ۔ وہ انگلش میں ایم اے کی ڈگری حاصل کر چکی ہیں اور ان کا تعلق ضلع صوابی کے علاقے جھنڈا سے ہے ۔ رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والی اے این پی کی بشریٰ گوہر نے ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ میں امریکہ سے ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی ہے ۔ وہ اے این پی شعبہ خواتین کی مرکزی نائب صدر ہیں ۔ وہ 1961 ء میں پیدا ہوئیں اور ان کا تعلق بھی ضلع صوابی سے ہے ۔ اے این پی کی نومنتخب رکن قومی اسمبلی جمیلہ گیلانی کا تعلق ضلع مردان سے ہے ۔ وہ 1960ء میں پیدا ہوئیں اور انہوں نے سائیکالوجی میں ایم اے کیا ہے ۔ اے این پی کی نومنتخب ایم پی اے شگفتہ ملک اے این پی شعبہ خواتین ضلع پشاور کی صدر ہیں ۔ انہوں نے پشاور یونیورسٹی سے پولٹیکل سائنس میں ایم اے کیا ہے ۔ اے این پی کی نومنتخب ایم پی اے یاسمین ضیاء اے این پی کے رہنما صدر الدین مروت کی اہلیہ ہیں جن کا تعلق لکی مروت سے ہے ان کے شوہر نے بھی پی ایف 74 لکی مروت سے الیکشن میں حصہ لیا تاہم کامیاب نہیں ہو سکے ۔ اے این پی کی نومنتخب ایم پی اے تبسم یونس کتوزئی کا تعلق ضلع چارسدہ کی تحصیل شبقدر سے ہے وہ اے این پی کے ضلعی نائب صدر یونس خان کی صاحبزادی ہیں ۔ انہوں نے پشاور یونیورسٹی سے اسلامیات میں ایم اے کیا ہے ۔ اے این پی کی نومنتخب ایم پی اے مسرت شفیع کا تعلق کوہاٹ سے ہے انہوں نے پشاور سے ایل ایل بی اور ایم اے پولٹیکل سائنس کی ڈگری حاصل کی ہے وہ اے این پی شعبہ خواتین ضلع کوہاٹ کی نائب صدر ہیں ۔ اے این پی کی ایم پی اے ڈاکٹر یاسمین جسیم نے افغانستان سے میڈیکل کی ڈگری حاصل کی ہے ان کا تعلق ضلع مردان کے علاقے گڑھی کپورہ سے ہے وہ ڈاکٹر جسیم کی اہلیہ ہیں جن کا تعلق ضلع صوابی سے ہے ۔ اے این پی کی ایم پی اے منور فرمان اے این پی شعبہ خواتین پشاور سٹی کی صدر ہیں اور وہ اے این پی کے رہنما فضل الرحمان آفریدی کی صاحبزادی ہیں ۔ اے این پی کی نومنتخب ایم پی اے زبیدہ احسان کا تعلق ضلع مردان کے علاقے لندخوڑ سے ہے ۔اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی مہر النساء آفریدی پی پی پی (پی) شعبہ خواتین کی صدر ہیں جو قومی و صوبائی دونوں نشستوں پر منتخب ہوئی ہیں۔ قومی و صوبائی دونوں نشستوں پر منتخب ہونے والی پی پی پی (پی) کی خاتون عاصمہ عالمگیر نومنتخب ایم این اے ارباب عالمگیر کی اہلیہ اور صوبہ سرحد کے سابق وزیراعلیٰ ارباب جہانگیر کی بہو ہیں جبکہ پیپلز پارٹی شعبہ خواتین مردان کی ڈویژنل صدر اور ریٹائرڈ جج امیر محمد خان کی اہلیہ مسز فرحت بیگم بھی بیک وقت قومی اسمبلی اور سرحد اسمبلی کی رکن منتخب ہو گئیں ۔دو نشستوں پر بیک وقت کامیاب ہونے والی خواتین ممبران سب سے پہلے جس اسمبلی میں حلف اٹھائیں گی یہ اسی اسمبلی کی نشست ان کے پاس رہے گی جبکہ دوسری نشستیں خالی ہو جائیں گی اور ان نشستوں پر ان کی پارٹی کی دیگر خواتین ممبران کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا ۔ذرائع کے مطابق مہر النساء آفریدی ،عاصمہ عالمگیر اور مسز فرحت بیگم قومی اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھائیں گی جبکہ ان کی سرحد اسمبلی کی نشستیں خالی ہو جائیں گی اور ان پر پیپلز پارٹی کی دیگر خواتین امیدواروں کا چنائو عمل میں لایا جائے گا ۔دریں اثناء مسلم لیگ(ن)سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر امتیاز سلطان بخاری بھی قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہو گئیں ۔ڈاکٹر امتیاز سلطان بخاری اس سے قبل رکن سرحد اسمبلی رہ چکی ہیں ۔ صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر پیپلز پارٹی کی جو خواتین سرحد اسمبلی کی ارکان منتخب ہوئیں ان میں شازیہ طماش ،ڈاکٹر فائزہ بی بی،مسز فرحت بیگم ،سنجیدہ یوسف،مہرالنساء آفریدی اور عاصمہ عالمگیر شامل ہیں ۔جب مہرالنساء آفریدی ،عاصمہ عالمگیر اور مسز فرحت صوبائی اسمبلی کی نشستیں چھوڑ دیں گی تو ان پر پیپلز پارٹی کی نور سحر اور نعیمہ نثار منتخب ہو سکیں گی۔ادھرایم ایم اے کی جانب سے عظمیٰ خان،زرقا اور سیدہ تبول ناصر سرحد اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی ہیں جبکہ مسلم لیگ(ن)کی جو خواتین منتخب ہوئیں ان میں شازیہ اورنگزیب اور مہر سلطانہ اور مسلم لیگ ق کی جانب سے نگہت اورکزئی اور پیپلز پارٹی شیر پائو کی جانب سے بیگم نرگس ثمین رکن سرحد اسمبلی منتخب ہوئی ہیں ۔اے این پی سے تعلق رکھنے والے پشاور کے آصف بھٹی ،پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین سے تعلق رکھنے والے پرنس جاوید اور ایم ایم اے سے تعلق رکھنے والے ڈیرہ اسماعیل خان کے کشور کمال اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر سرحد اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں ۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اقلیتی نشستوں پر کامیاب ہونے والے تینوں امیدواروں کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا سندھ سے قومی اسمبلی کے لئے خواتین کی مخصوص نشستوں کے لئے 14خواتین امیدوار جبکہ صوبائی اسمبلی سندھ کے لئے اقلیتوں اور خواتین کی نشستوں پر 38امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔عام انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے مخصوص نشستوں کے نوٹیفیکیشن کے مطابق قومی اسمبلی کے لئے سندھ سے پیپلز پارٹی کی 7خواتین امیدوار خواتین کی مخصوص نشستوں پر کامیاب ہوئی ہیں جبکہ پی پی پی نے سندھ اسمبلی میں خواتین کی 17اور اقلیتوں کی 5مخصوص نشستیں حاصل کیں ہیں۔ اسی طرح متحدہ قومی موومنٹ نے سندھ سے قومی اسمبلی کے لئے پانچ خواتین کی نشستیں اور ایک مخصوص اقلیتی نشست حاصل کی ہے جبکہ قومی اسمبلی میں سندھ سے پاکستان مسلم لیگ (ق) اور فنکشنل مسلم لیگ ایک ایک خواتین کی نشست حاصل کرسکی ہیں۔سندھ اسمبلی میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر 38امیدواروں نے کامیابی حاصل کی ہے جن میں سے پیپلز پارٹی کے 22، متحدہ قومی موومنٹ کے 12،مسلم لیگ ق کے دو اور فنکشنل لیگ کے دو امیدوار ہیں۔سندھ اسمبلی میں خواتین کے لئے مخصوص 30نشستوں میں سے پیپلز پارٹی کی 17خواتین، متحدہ قومی موومنٹ کی 9، فنکشنل لیگ کی دو اور ق لیگ کی بھی دو خواتین امیدواروں نے نشستیں حاصل کی ہیں جبکہ سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی پانچ امیدوار اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستوں پر کامیاب ہوئے ہیں اور دوسرے نمبر پر ایم کیو ایم کے تین امیدوار مخصوص نشستوں پر سندھ اسمبلی میں منتخب ہوئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفیکیشن کے مطابق سندھ سے قومی اسمبلی کے لئے خواتین کی مخصوص نشستوں پر کامیاب ہونے والی پیپلز پارٹی کی امیدواروں میں شہربانو( شیری رحمان)، نفیسہ شاہ، فرخ ناز اصفہانی، روبینہ قائم خانی، فوزیہ وہاب ، شگفتہ جمانی اور ڈاکٹر میرین رزاق بھٹو شامل ہیں۔ اسی طرح ایم کیو ایم کی قومی اسمبلی کے لئے خواتین کی مخصوص نشستوں پر کامیاب ہونے والی امیدواروں میں خوش بخت شجاعت، کشور زہرہ، فوزیہ اعجاز محمد خان، عمرانہ سعید جمیل اور شگفتہ صدیق شامل ہیں مسلم لیگ ق کی جانب سے فضہ جونیجواور ق لیگ کی انیسا کمار خواتین کی مخصوص نشستوں پر قومی اسمبلی میں منتخب ہوئی ہیں۔ سندھ اسمبلی سے خواتین کی مخصوص نشستوں پر کامیاب ہونے والی اراکین میں پیپلز پارٹی کی شگفتہ جمانی، فرح نازاصفہانی، شازیہ مری، فردوس حمید، فرحین مغل، ڈاکٹر مہرین رزاق بھٹو، حمیرا علوانی، فرزانہ حنیف، رقیہ خانم سومرو، شمع مٹھانی، شہناز بوزدار، کلثوم اخترچانڈیو، سیدہ شہلہ رضا، نرگس این ڈی خان، رخسانہ پروین، توقیر فاطمہ بھٹو، راشدہ اختر پنہور، ایم کیو ایم کی بلقیس مختار، نادیہ قبول ہیر سوہو، زریں مجید، حسنہ آفتار، مسرت بانو وارثی، ناہید بیگم، صبا سید، مس شہناز، پاکستان مسلم لیگ (ق) کی سجیلہ لغاری اور نذہت پٹھان کے علاوہ مسلم لیگ فنکشنل کی سیدہ ماروی راشدی، نصرت بانو سحر عباسی شامل ہیں۔ سندھ اسمبلی میں اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر پاکستان پیپلز پارٹی کے موہن لال، پٹن برسہوانی، لال چند، مکیش کمار اور سلیم خورشید کھوکھر جبکہ ایم کیو ایم کے ہرگن دس ، اسٹیفن آصف پیٹر اور ڈاکٹر پرتاب رکن صوبائی اسمبلی سندھ منتخب ہوئے ہیں۔متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے قومی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشست پر منتخب ہونے والی امیدوار خوش بخت شجاعت عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 250سے بھی کامیابی حاصل کرنے کے بعد رکن قومی اسمبلی منتخب ہوچکی ہیں جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے سندھ سے قومی اسمبلی کے لئے خواتین کی مخصوص نشستوں پر کامیاب ہونے والی امیدواروں فرخ ناز اصفہانی ، ڈاکٹر مہرین رزاق بھٹو اور شگفتہ جمانی سندھ اسمبلی کے لئے بھی خواتین کی مخصوص نشستوں پر منتخب ہوئی ہیں۔سندھ اسمبلی کے لئے منتخب ہونے والی خواتین کی مخصوص نشستوں پر پیپلز پارٹی کی اراکین شازیہ مری، فرین مغل، ڈاکٹر مہرین رزاق بھٹو، حمیرا علوانی اور شمع عارف پٹھانی سابق اسمبلی میں بھی سندھ اسمبلی کی رکن رہ چکی ہیں جبکہ شگفتہ جمانی، فرخ ناز اصفہانی، فردوس حمید، فرزانہ حنیف، رقیہ خانم سومرو، شنہاز بوزدار، کلثوم اختر چانڈیو ،سید شہلا رضا، نرگس این ڈی خان، رخسانہ پروین، توقیر فاطمہ بھٹو اور راشدہ اختر پنہور پہلی بار سندھ اسمبلی کے لئے منتخب ہورہی ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے بلقیس مختیار، ہیر سوہو سابق اسمبلی میں رکن صوبائی اسمبلی سندھ تھیں جبکہ نادیہ قبول پہلی بار سندھ اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشست پر کامیا ب ہوکر سندھ اسمبلی کی رکن بن رہی ہیں۔پاکستان مسلم لیگ ق کی جانب سے سندھ اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشست پر کامیاب ہونے والی دونوں امیدوار جن میں شرجیلا لغاری اور نزہت پٹھان شامل ہیں سابقہ دور میں بھی رکن صوبائی اسمبلی تھیں جبکہ نزہت پٹھان سابق دور میں سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی جانب سے منتخب ہوئی تھیں تاہم بعد میں انہوں نے ق لیگ میں شمولیت اختیار کرلی تھی اور سندھ میں وزیر اعلیٰ کی مشیر کی حیثیت سے منتخب ہوئی تھیں۔فنکشنل لیگ کی جانب سے صوبائی اسمبلی سندھ میں منتخب ہونے والی دونوں خواتین امیداروں سید ماروی راشدی اور نصرت بانو سحر عباسی پہلی بار سندھ اسمبلی کی رکن بنی ہیں۔واضح رہے کہ سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی جانب سے واضح اور سادہ اکثریت حاصل کرنے کے بعد پہلے ہی تنہا حکومت سازی کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے اور وزیر اعلیٰ سندھ کے لئے پی پی پی کی جانب سے قائم علی شاہ کو نامزد کردیا گیا ہے جبکہ اسپیکر سندھ اسمبلی کے لئے نثار کھوڑو اور سندھ اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر کے لئے پیر مظہر الحق کو منتخب کیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے تاحال سندھ کابینہ کے لئے ناموں پر غور جاری ہے اور اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔دریں اثناء عام انتخابات 2002ء میں بھی پیپلز پارٹی نے سندھ میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں تھیں تاہم پاکستان مسلم لیگ ق، متحدہ قومی موومنٹ، مسلم لیگ فنکشنل اور نیشنل پیپلز پارٹی نے ملکر حکومت بنالی تھی اور پیپلز پارٹی نے پانچ سال اپوزیشن میں گزارے تھے۔ تاہم اس بار پیپلز پارٹی نے سندھ میں تنہا حکومت سازی کے لئے سادہ اکثریت حاصل کرلی ہے ۔قومی اسمبلی میں بلوچستان سے خواتین کی تین نشستوں پر مسلم لیگ (ق) ،پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام کی ایک ایک رکن منتخب ہوئی ہیں مخصوص نشستوں پر مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر سابق وفاقی وزیر زبیدہ جلال ،پیپلز پارٹی کی ڈاکٹر ظل ہما اور جمعیت علماء اسلام کی آسیہ ناصر کو کامیاب قرار دیا گیا ہے۔ زبیدہ جلال اور آسیہ ناصر گزشتہ قومی اسمبلی میں بھی رکن تھیں تاہم ڈاکٹر ظل ہما پہلی دفعہ قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی ہیں۔سابق قومی اسمبلی میں زبیدہ جلال تربت سے عام نشست پر منتخب ہوئی تھیں تاہم اس مرتبہ وہ عام انتخابات میں کامیاب نہ ہوسکیں جس کے بعد مخصوص نشستوں پر انہوں نے کامیابی حاصل کرلیبیگم عشرت اشرف، میمونہ ہاشمی، شہناز وزیر علی، مہرین انور راجہ، فوزیہ حبیب، شیری رحمٰن اور شگفتہ جمانی سمیت 22 خواتین مخصوص نشستوں پر دوبارہ رکن قومی اسمبلی بن گئیں۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کئے گئے نوٹیفکیشن کے مطابق مسلم لیگ(ن) کی بیگم عشرت اشرف ، میمونہ ہاشمی اور تہمینہ دولتانہ پاکستان پیپلز پارٹی کی رخسانہ بنگش، شہناز وزیرعلی، بیلم حسنین، میرین انور بھٹو، فوزیہ وہاب، شکیلہ خانم رشید، یاسمین رحمٰن، بیگم نسیم اختر چوہدری، شیری رحمٰن، روبینہ سعادت قائم خانی، فوزیہ وہاب ، شگفتہ جمانی دوسری مرتبہ رکن اسمبلی بن گئی ہیں۔ پنجاب اسمبلی کیلئے خواتین کی مخصوص 66 نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کی 30' پی پی پی کی 19' پاکستان مسلم لیگ کی 16 خواتین نے کامیابی حاصل کی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر کامیاب ہونیوالی خواتین ممبران صوبائی اسمبلی میں طاہرہ اورنگزیب زوجہ راجہ اورنگزیب راولپنڈی' زیب جعفر دختر چوہدری جعفر اقبال رحیم یار خان' نگہت پروین میر زوجہ محمد اقبال بٹ جہلم' خالدہ منصور بیوہ خالد بشیر فیصل آباد' شہناز سلیم زوجہ محمد سلیم ملک ڈیرہ غازیخان' پروین مسعود بھٹی زوجہ محمد مسعود بھٹی بہاولپور' طیبہ ضمیر زوجہ تبسم سہیل سرگودھا' غزالہ سعد رفیق زوجہ خواجہ سعد رفیق لاہور' نفیسہ امین زوجہ محمد امین شیخ لاہور' افشاں فاروق دختر محمد فاروق فیصل آباد' فرح دیبا دختر محمد سعید عرف رنگیلا (مرحوم) لاہور' انجم صفدر زوجہ محمد صفدر فیصل آباد' عارفہ خالد پرویز زوجہ خالد پرویز لاہور کینٹ' یاسمین خان دختر عطاء محمد خان لاہور' شمائلہ رانا دختر ہدایت علی لاہور' شمیلا اسلم زوجہ میاں محمد اسلم وہاڑی' فریحہ نایاب زوجہ نایاب احمد پتوکی قصور' مائزہ حمید دختر زاہد حمید لاہور' صائمہ عزیز دختر چوہدری محی الدین لاہور' کرن ڈار دختر محمد حسین ڈار لاہور' محمودہ چیمہ زوجہ محمد سرور چیمہ سیالکوٹ' نسیم ناصر خواجہ زوجہ خواجہ ناصر مجید سیالکوٹ' راحیلہ خادم حسین دختر سردار خادم حسین لاہور' ڈاکٹر غزالہ رضا رانا زوجہ ڈاکٹر رضا الرحمن فیصل آباد' ڈاکٹر زمرد یاسمین زوجہ رانا محمد سعید اختر لاہور' دیبا مرزا زوجہ مرزا عبدالوحید بیگ سیالکوٹ' شمسہ گوہر زوجہ گوہر سرفراز قریشی سیالکوٹ' انیلہ اختر چوہدری دختر محمد اختر علی قصور' سکینہ شاہین خان بیوہ ذوالفقار احمد لاہور' لیلیٰ مقدس زوجہ ثاقب حیات مانگٹ حافظ آباد۔ پی پی پی کی پنجاب اسمبلی سے خواتین کی مخصوص نشستوں پر کامیاب ہونیوالی ممبران صوبائی اسمبلی میں فرزانہ راجہ زوجہ پیر مکرم الحق راولپنڈی' جسٹس (ر) فخر النساء کھوکھر زوجہ عبدالقادر لاہور کینٹ' فوزیہ حبیب دختر کرنل (ر) حبیب خان راولپنڈی' یاسمین رحمن زوجہ میاں مصباح الرحمن لاہور' شکیلہ خانم رشید زوجہ شیخ محمد رشید لاہور' ثمینہ مشتاق پگانوالہ زوجہ میاں فخر مشتاق پگانوالہ گجرات' نرجس فیض ملک دختر فیض محمد ملک راولپنڈی' آصفہ فاروقی دختر محمد یاسین فاروقی جھنگ صدر' کشور قیوم زوجہ قیوم نظامی لاہور' صاحبزادی نرجس ظفر زوجہ ماجد مختار چوہدری راولپنڈی' نجمی سلیم زوجہ سلیم مسیح سندھو اوکاڑہ' فوزیہ بہرام دختر محمد بہرام خان چکوال' ناظمہ جواد ہاشمی زوجہ جواد احمد اقبال ہاشمی راولپنڈی کینٹ' طلعت یعقوب دختر محمد یعقوب لاہور کینٹ' ساجدہ میر دختر محمد اشرف لاہور' نرجس پروین اعوان زوجہ ملک مختار احمد اعوان لاہور' سفینہ صائمہ کھر زوجہ ملک غلام عربی کھر اسلام آباد' آمنہ بٹر زوجہ محمد دائود لاہور' رفعت سلطانہ ڈار زوجہ میاں محمود الحسن ڈار فیصل آباد۔ پاکستان مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کرنیوالی خواتین کی مخصوص نشستوں پر منتخب ممبران صوبائی اسمبلی میں نسیم لودھی زوجہ مقصود اختر چوہدری لاہور' صباء صادق زوجہ ثاقب عثمان خان لاہور' فرحانہ افضل زوجہ محمد افضل سرگودھا' خدیجہ عمر زوجہ عمر سعید گجرات' فائزہ اصغر زوجہ جاوید اصغر لاہور' سیدہ بشریٰ نواز گردیزی زوجہ سید محمد عزیز گردیزی لاہور' ماجدہ زیدی زوجہ ارتضیٰ حیدر لاہور' ثمینہ خاور حیات زوجہ خاور حیات لاہور' عائشہ جاوید زوجہ جاوید اقبال ملک لاہور' آمنہ الفت زوجہ محمد نواز لاہور' ڈاکٹر سمیعہ امجد زوجہ محمد امجد خانیوال' قمر عامر چوہدری زوجہ عامر ندیم چوہدری گجرات' انبساط حمید زوجہ حامد حمید لاہور' زوبیہ رباب ملک زوجہ عاصم محمود ملک لاہور' آمنہ جہانگیر زوجہ جہانگیر ضیاء لاہور' غزالہ فرحت بیوہ سلطان عظمت حیات چکوال اور پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کی نشست پر کامیابی حاصل کرنیوالی واحد خاتون ڈاکٹر عاصمہ ممدوٹ زوجہ نوابزادہ ذوالفقار علی خان ممدوٹ لاہور شامل ہیں۔پنجاب اسمبلی کی کل 371 نشستوں میں سے اب تک مکمل ہونیوالی 365 نشستوں پر انتخاب کے نتیجہ میں پی پی پی کو 106' مسلم لیگ (ن) کو 165' پاکستان مسلم لیگ کو 86' ایم ایم اے کو 2' مسلم لیگ فنکشنل کو 4 نشستیں ملی ہیں۔ جبکہ 2 ارکان آزاد ہیں۔ الیکشن کمیشن کے ذرائع کے مطابق صوبائی اسمبلی کیلئے پی پی پی نے پنجاب سے 80 جنرل نشستیں' 19 خواتین کیلئے مخصوص نشستیں اور 2 غیر مسلم اقلیت کے لئے مختص نشستیں حاصل کیں۔ جبکہ 5 آزاد ارکان صوبائی اسمبلی پنجاب بھی پی پی پی میں شامل ہوئے ہیں۔ ا مسلم لیگ (ن) نے جنرل الیکشن میں 104 جنرل نشستیں' خواتین کیلئے مخصوص 30 نشستیں اور غیر مسلم اقلیت کیلئے مخصوص 4 نشستیں حاصل کیں جبکہ 27 آزاد ممبران صوبائی اسمبلی پنجاب نے بھی مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کرلی۔ تیسرے نمبر پر آنیوالی پارٹی پاکستان مسلم لیگ نے پنجاب سے صوبائی اسمبلی کی 68 جنرل نشستیں' 16 خواتین کیلئے مخصوص نشستیں اور 2 غیر مسلم اقلیت کیلئے مخصوص نشستیں حاصل کیں۔ متحدہ مجلس عمل کے پنجاب سے 2 ممبران صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ اسی طرح پاکستان مسلم لیگ فنکشنل نے 3 جنرل نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور اس کی ایک خاتون امیدوار بھی مخصوص نشست پر کامیاب ہوئی۔ذرائع کے مطابق 2 آزاد ممبران اسمبلی بھی پنجاب اسمبلی میں پہنچے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) نے عددی اعتبار سے پہلی' پی پی پی نے دوسری' پاکستان مسلم لیگ نے تیسری' مسلم لیگ فنکشنل نے چوتھی پوزیشن حاصل کی ہے۔ الیکشن کمیشن کے ذرائع نے بتایا ہے کہ پنجاب' سندھ' سرحد' بلوچستان کی کل 728 نشستوں میں سے اب تک پر ہونیوالی صوبائی اسمبلیوں کی کل 704 نشستوں پر پی پی پی نے مجموعی طور پر 235' مسلم لیگ (ن) نے 174' پاکستان مسلم لیگ (ق) نے 120' عوامی نیشنل پارٹی نے 50' متحدہ قومی موومنٹ نے 51' متحدہ مجلس عمل نے 26' پیپلز پارٹی شہید بھٹو گروپ نے 7' پاکستان مسلم لیگ فنکشنل نے 13' این پی پی نے 2' بی این پی اے نے 7' این پی نے ایک اور آزاد امیدواران نے 18 نشستیں حاصل کی ہیں۔نگران وزیراطلاعات ونشریات نثار میمن، مخدوم جاوید ہاشمی، محمد خان جونیجو، سابق ڈپٹی سپیکر چوہدری جعفر اقبال اورقائم علی شاہ کی بیٹیاں جبکہ حسین حقانی، سعد رفیق، ذوالفقار مگسی، ڈاکٹر ارباب عالمگیر کی بیگمات خواتین کی مخصوص نشستوں پر قومی وصوبائی اسمبلی کی ارکان بن گئی ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق نگران وزیر اطلاعات ونشریات نثار اے میمن کی بیٹی ماروی میمن پاکستان مسلم لیگ(ق) کی طرف سے پنجاب سے قومی اسمبلی کیلئے نامزد کی گئی تھیں وہ رکن قومی اسمبلی بن گئی ہیں۔ سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو (مرحوم) کی بیٹی کنیر فضہ جونیجو پاکستان مسلم لیگ(ق) کے ٹکٹ پر خواتین کی مخصوص نشستوں پر سندھ سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئی ہیں۔ سابق ڈپٹی سپیکر چوہدری جعفر اقبال کی بیگم عشرت اشرف پاکستان مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر پنجاب سے قومی اسمبلی کی رکن بن گئی ہیں جبکہ ان کی بیٹی زیب جعفر پنجاب اسمبلی سے خواتین کی مخصوص نشستوں پر رکن بنی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما میاں مصباح الحق کی بیگم یاسمین رحمٰن پنجاب سے قومی اسمبلی کی مخصوص نشست پر رکن بن گئی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما مشتاق حسین پگانوالہ کی بہو ثمینہ مشتاق پگانوالہ پنجاب سے قومی وصوبائی اسمبلی کی رکن بن گئی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سندھ کے نامزد وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کی بیٹی نفیسہ شاہ سندھ سے مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی بن گئی ہیں۔ سابق سیکرٹری اطلاعات ونشریات اور سابق مشیر حسین حقانی کی بیگم فرخ ناز اصفہانی سندھ سے مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی وصوبائی اسمبلی بن گئی ہیں۔ نو منتخب رکن قومی اسمبلی مخدوم جاوید ہاشمی کی بیٹی میمونہ ہاشمی پنجاب سے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر مخصوص نشست پر رکن اسمبلی بن گئی ہیں۔ رکن اسمبلی خواجہ سعد رفیق کی بیگم غزالہ سعد رفیق خواتین کی مخصوص نشست پر رکن بن گئی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما کرنل(ر) حبیب خان کی بیٹی فوزیہ حبیب پنجاب سے رکن قومی اسمبلی بن گئی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما قیوم نظامی کی بیوی کشور قیوم بھی رکن صوبائی اسمبلی بن گئی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سابق وفاقی وزیر ملک مختار اعوان کی بیگم نرگس پروین اعوان بھی پنجاب اسمبلی کی رکن بن گئی ہیں۔ سابق وفاقی وزیر اور وزیراعلیٰ ارباب جہانگیر کی بہو عاصمہ ارباب عالمگیر سرحد سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی مخصوص نشست پر رکن بن گئی ہیں۔ کھر خاندان کے ملک غلام عربی کھر کی بیگم سفینہ صائمہ کھر پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی پنجاب کی رکن بن گئی ہیں۔ ممدوٹ خاندان کے نواب زادہ ذوالفقار علی خان ممدوٹ کی بیگم عاصمہ ممدوٹ پنجاب اسمبلی کی رکن بن گئی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی سینئر رہنما اور سابق رکن قومی اسمبلی عطاء محمد مری کی بیٹی شازیہ مری سندھ اسمبلی میں مخصوص نشست پر رکن بن گئی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما طہماس خان کی بیٹی شازیہ طہماس خان سرحد اسمبلی کی نشست پر رکن بن گئی ہیں۔ بلوچستان کے گورنر نواب ذو الفقار علی خان مگسی کی بیگم سمیع پروین مگسی بلوچستان اسمبلی کی مخصوص نشست پر رکن بن گئی ہیں۔ بلوچستان سے مسلم لیگ(ق) کے مرکزی رہنما نو منتخب رکن سعید احمد ہاشمی کی بیگم ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی بھی بلوچستان کی خصوصی نشست پر رکن بن گئیں۔بلوچستان اسمبلی کی پانچ سابق خواتین ارکان مخصوص نشستوں پر دوبارہ منتخب ہوگئی ہیں جبکہ 6سابق ارکان دوبارہ منتخب نہیں ہوسکی ہیں جن کی جگہ 6نئی ارکان اس مرتبہ منتخب ہوئی ہیں۔ مخصوص نشستوں پر دوبارہ منتخب ہونے والی خواتین ارکان میں بیگم رقیہ سعید ہاشمی ، بیگم شمع پروین مگسی ،راحیلہ درانی ،روبینہ عرفان اور شاہدہ راؤف شامل ہیں جبکہ نئی منتخب ہونے والی ارکان میں پیپلز پارٹی کی ثمینہ رازق،غزالہ ارشاد گولہ ،ایم ایم اے کی حسن بانو،بی این پی (عوامی )کی فوزیہ نذیر مری ،بی بی زرینہ اور اے این پی کی عظمیٰ آہد پانیزئی شامل ہیں ۔سابق اسمبلی جو دوبارہ منتخب نہیں ہوسکیں ان میں بی این پی (عوامی) کی فرح عظیم شاہ ، ایم ایم اے کی ثمینہ سعید ،آمنہ خانم ،جے ڈبلیو پی کی ڈاکٹر ربابہ حیدر،نیشنل پارٹی کی ڈاکٹر شمع اسحاق اور پشتونخواملی عوامی پارٹی کی سپوزمئی اچکزئی شامل ہیں ۔جے ڈبلیو پی ،نیشنل پارٹی اور پشتونخواملی عوامی پارٹی نے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا تھا اس لئے ان کا کوئی رکن منتخب نہیں ہوا جس کی وجہ سے یہ خواتین بھی منتخب نہیں ہوسکیں جبکہ بی این پی (عوامی )نے اپنی سابق رکن فرح عظیم شاہ کی جگہ ڈاکٹر فوزیہ مری اور بی بی زرینہ کو نامزد کردیا تھا جس کی وجہ سے فرح عظیم شاہ دوبارہ منتخب نہیں ہوسکیں ۔ایم ایم اے نے بھی سابق اسمبلی کے آخری ایام میں فلور کراس کرنے والی رکن آمنہ خانم اور جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والی خاتون رکن ثمینہ سعید کو ترجیح فہرست میں شامل نہیں کیا تھا اس لئے وہ اسمبلی میں نہ پہنچ سکیں۔ نومنتخب خواتین ارکان میں زیادہ تر اعلیٰ شخصیات کی رشتہ دار ہیں جبکہ بہت کم سیاسی کارکن ہیں ۔مسلم لیگ (ق) کی نومنتخب ارکان بیگم شمع پروین مگسی گورنر بلوچستان نواب ذؤالفقار مگسی اوربیگم رقیہ سعید ہاشمی سینیٹر سعید ہاشمی کی اہلیہ ہیں مسلم لیگ (ق) کی صرف راحیلہ درانی سیاسی کارکن ہیں اسی طرح پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی ثمینہ رازق اور غزالہ ارشاد گولہ سیاسی کارکن ہیں جبکہ دیگر خواتین گھریلو ہیں اور انہیں محض نشستیں مکمل کرنے کیلئے اسمبلی میں لایا گیا بلوچستان اسمبلی کی پارلیمانی تاریخ میں شاید یہ پہلا واقعہ ہو کہ میاں بیوی دونوں رکن اسمبلی منتخب ہوگئے۔قلات سے عام نشست پر آزاد حیثیت سے منتخب ہونے والے رکن اسمبلی آغا عرفان کی اہلیہ روبینہ عرفان مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر خواتین کی مخصوص نشست پر منتخب ہوگئیں ہیں آغا عرفان کریم کا تعلق نیشنل پارٹی سے تھا نیشنل پارٹی نے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا جس کے بعد انہوں نے قلات سے آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لیا اور کامیابی حاصل کرنے کے بعد پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی اس طرح اب دونوں میاں ،بیوی میں سے ایک حکومت میں اوردوسرا اپوزیشن میں ہوگا۔ بلوچستان اسمبلی میں مسلم لیگ (ق) کو خواتین کی چار ،پیپلز پارٹی کو 2،جمعیت علماء اسلام کو دو ،بی این پی (عوامی)کو دو اور عوامی نیشنل پارٹی کو ایک نشست ملی بلو چستا ن اسمبلی میں خواتین کی گیارہ مخصوص نشستیں جبکہ ایک رکن بارکھان سے نسرین کھیتران عام نشست پر منتخب ہوئی ہیں اس طرح بلوچستان اسمبلی میں 12ارکان ارکان اسمبلی ہونگی گزشتہ اسمبلی میں بھی 12خواتین رکن تھیں ۔بلوچستان اسمبلی میں اقلیتوں کیلئے مخصوص نشستوں پر مسلم لیگ کا ایک ،پیپلز پارٹی کا ایک اورجمعیت علماء اسلام کا ایک رکن منتخب ہوا ہے۔فرزانہ راجہ، فوزیہ حبیب، طاہرہ اورنگزیب، فرخ ناز اصفہانی اور عاصمہ ارباب عالمگیر سمیت 17 خواتین قومی کے علاوہ صوبائی اسمبلی کی رکن کے طور پر بھی کامیاب ہوگئی ہیں جبکہ بطور رکن حلف اٹھانے کے بعد ایک نشست خالی ہو جائے گی۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کی مخصوص نشستوں پر کامیاب اراکین کے جاری کئے گئے نوٹیفکیشن کے مطا بق پنجاب سے مسلم لیگ (ن) کی پانچ اور پاکستان پیپلزپارٹی کی 6 خواتین قومی وصوبائی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی ہیں جبکہ سرحد سے پیپلز پارٹی کی تین خواتین اور سندھ میں بھی تین خواتین قومی وصوبائی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی ہیں۔ کمیشن کے مطابق مسلم لیگ(ن) کی طاہرہ اورنگزیب ، نگہت پروین میر، طاہرہ منصور، شہناز سلیم اور پروین مسعود بھٹی رکن قومی وصوبائی اسمبلی منتخب ہوئی ہیں جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی پنجاب سے 6 خواتین میں فرزانہ راجہ، جسٹس (ر) فخر النساء کھوکھر، فوزیہ حبیب، یاسمین رحمٰن، شکیلہ خانم رشید اور ثمینہ مشتاق پگانوالہ رکن قومی اسمبلی وپنجاب اسمبلی منتخب ہوئی ہیں۔ صوبہ سندھ سے پیپلز پارٹی کی فرخ ناز اصفہانی، شگفتہ جمانی اور مہرین رزاق بھٹو جبکہ سرحد سے بھی پیپلز پارٹی کی عاصمہ ارباب عالمگیر، میرالنساء آفریدی اور فرحت بیگم رکن قومی اسمبلی وصوبائی اسمبلی منتخب ہوئی ہیں۔معروف فلمسٹار محمد سعید المعروف رنگیلا کی بیٹی فرخ دیبا بھی مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کی خصوصی نشستوں کیلئے کامیاب ہونے والی ارکان میں شامل ہیں۔ واضح رہے کہ وہ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے کلچرل ونگ کی عہدیدار بھی ہیں۔18 فروری کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشستوں پر ناکام ہونے کے باوجود پاکستان مسلم لیگ اور (ن) لیگ سے ایک، ایک خاتون مخصوص نشستوں پر رکن بن گئیں۔ الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کے مطابق پاکستان مسلم لیگ(ق) کی سابق وفاقی وزیر زبیدہ جلال قومی اسمبلی کے حلقہ 272 گوادر سے عام انتخابات میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے شکست کھا گئی تھیں تاہم وہ مسلم لیگ (ق) کی طرف سے مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی بن گئی ہیں جبکہ مسلم لیگ(ن) کی زیب جعفر اقبال بھی رحیم یار خان سے قومی اسمبلی کی جنرل نشست پر شکست کھانے کے بعد پنجاب اسمبلی کی خصوصی نشستوں پر رکن بن گئی ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کی تہمینہ دولتانہ، پاکستان مسلم لیگ(ق) کی سمیرا ملک اورایم کیو ایم کی خوش بخت شجاعت عام نشستوں پر کامیابی کے بعد خواتین کی مخصوص نشستوں پر بھی رکن قومی اسمبلی بن گئیں۔ مسلم لیگ(ن) کی مرکزی رہنما تہمینہ دولتانہ عام انتخابات میں وہاڑی سے کامیاب قرار پائیں۔ مسلم لیگ(ق) کی شعبہ خواتین کی صدر سمیرا ملک خوشاب سے قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں جبکہ ایم کیو ایم کی خوش بخت شجاعت بھی کراچی سے عام نشست پر منتخب ہوئیں جبکہ ان تینوں خواتین رہنمائوں کو پارٹیوں نے مخصوص نشستوں پر بھی نامزد کیا تھا کہ اگر وہ عام انتخابات میں شکست کھا جاتی ہیں تو پھر بھی ان کیلئے قومی اسمبلی میں پہنچنے کا راستہ کھلا رہے۔ خوش قسمتی سے تینوں خواتین عام انتخابات میں بھی اپنی نشستیں جیت لیں اور اب وہ اپنی مخصوص نشستوں سے مستعفی ہو جائیں گی اور ان کے استعفیٰ دینے کے بعد تینوں جماعتوں کی نامزد کردہ خواتین کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری ہو گا۔
امین فہیم اور پارٹی رہنماوں کے مابین اختلافات کی بڑھٹی خلیج
پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے صدر مخدوم امین فہیم نے اپنے خلاف نامناسب رائے دینے پر مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف کو عدالتی نوٹس جاری کردیا ہے۔ خواجہ آصف نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد مخدوم امین فہیم نے صدر پرویز مشرف سے کئی ملاقاتیں کیں۔ خواجہ آصف کے مطابق مخدوم امین فہیم نے 18 فروری کو ہونے والے الیکشن کے روز بھی پرویز مشرف سے ملاقات کی۔ قبل ازیں انہوں نے اس دن بھی صدر پرویز مشرف سے ملاقات کی جس دن بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا۔ مخدوم امین فہیم نے ان الزامات کا سخت نوٹس لیتے ہوئے منگل کو خواجہ آصف کو قانونی نوٹس ارسال کردیا۔امین فہیم نے ایک انٹرویو میں خواجہ آصف کے بیان کے حوالے سے ایک سوال پر کہا کہ یہ ایشو ایسا تھا جس پر میں خاموش نہیں رہ سکتا تھا اور میں نے آصف زرداری صاحب سے کل رات کہا کہ اس قسم کا بیان تشویش ناک ہے اور آپ اس پرمسلم لیگ نواز سے بات کریں اور رات کو میری شہبازشریف صاحب سے بھی فون پر بات چیت ہوئی تھی تو میں نے ان سے کہا تھا کہ میں احتجاج کررہا ہوں کہ آپ کی پارٹی کے ایک رکن نے یہ بات کہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ محترمہ کا قتل ہو اور میں بیٹھ کر ملاقات کروں اور سیاسی باتیں کروں لہذا میں نے خواجہ آصف صاحب کو قانونی نوٹس دیا ہے حالانکہ میں ان کی بہت عزت کرتا ہوں لیکن اس سے میری ذات پر بڑا دھبہ لگ رہا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی رہنما مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ ڈیسنٹ چند آدمی میری زندگی میں ہوں گے جو اتنے رکھ رکھاؤ اور پُروقار طریقے سے جن کے یہ طریقے ہیں لیکن مجھے ان کے ردعمل پر بھی تھوڑا گلہ اس لیے ہوا کہ ان کی پرسنلٹی کے لیے وزیراعظم ہونا نا ہونا اب بہت چھوٹی بات ہے۔ اس واقعے کا آئندہ کے تعلقات پر اثر پڑے گا ۔اس کا جواب دیتے ہوئے مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں مجھے خود یہ اچھا نہیں لگا ۔میں سمجھتا ہوں خواجہ صاحب نے تھوڑی سی بے احتیاطی کی ہے اور اس کی وجہ سے پیپلزپارٹی کے اندر بھی دل رنجیدہ ہوئے ہیں لیکن جس طرح آصف علی زرداری اور میاں نوازشریف جس طرح کمیٹڈ ہیں لیکن یہ سمجھنا کہ کوئی دوریاں یا غلط فہمیاں ہیں۔ خواجہ آصف بھی کیوں کہ کھل کربات کرنے کے عادی ہیں۔ ایک انٹرویو میں مخدوم امین فہیم نے وزارت اعظمیٰ کے امیدوار کے لیے آصف زرداری کی نامزدگی کے حوالے سے اطلاعات پر پیش رفت پر کہا کہ مجھے اپنے سارے دوستوں کا بہت احترام ہے لیکن میں ان سب سے زیادہ آصف زرداری کی بات کو اہمیت دیتاہوں اور وہ بارہاکہہ رہے ہیں کہ وہ وزارت اعظمیٰ کے امیدوار نہیں ہیں لہذا مجھے ان کی بات پر یقین ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر آصف زرداری صاحب کو وزیراعظم بننا ہے تو کہہ دیں کہ مجھے وزیراعظم بننا ہے جھگڑا کس چیز کا ہے۔ انہوں نے وزارت اعظمیٰ کے لیے اپنا نام رضاکارانہ طور پر واپس لینے کے حوالے سے کہا کہ میں ایسا کیوں کروں، جب کہ یہ ایشو نہیں ہے تو میں یہ کیوں کروں۔اس سوال پر کہ آپ نے ہالہ کے مخدوم کو ناراض کردیا ہے۔ کیا یہ آپ کی پارٹی کی حکمت عملی تھی جس کا اظہار کل خواجہ آصف نے کیا ، جواب دیتے ہوئے مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا کہ اگر آپ دل کی بات پوچھیں اور اصول کی بات پوچھیں۔میرا براہ راست رابطہ نہیں ہوا خواجہ آصف سے۔ یہ باتیں اگر تھیں بھی تو اگر کوئی اعتراض ہمارے تھے بھی تو یہ پارٹی کے اندر ایک دوسرے کو بتائے جاسکتے ہیں۔ اول تو یہ استحقاق ہم نے پیپلز پارٹی کو دیدیا کہ پیپلز پارٹی اپنا وزیراعظم کا نمائندہ خود دے گی۔ اگر مشورہ بھی مانگا جاتا تو وہ بھی ٹی وی چینل پر نہیں ہوتا۔ خواجہ آصف میرے انتہائی عزیز دوست بھی ہیں، میری پارٹی کے بہت بڑے رہنما ہیں انہیں احتیاط کرنی چاہئے تھی ۔یہ احتیاطوں کا وقت ہے۔مخدوم امین فہیم منگل کی دوپہر کراچی سے اسلام آبادروانہ ہو گئے، ذرائع کے مطابق پارٹی کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات شیری رحمن اور دیگر رہنماوٴں نے مخدوم امین فہیم سے رابطے کیے اور گزشتہ دو دنوں میں ہونے والی بات چیت اور میڈیا پر آنے والی خبروں کی وضاحت کی، ذرائع کے مطابق پارٹی کے چند سینئر رہنماوٴں نے بھی پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور مخدوم امین فہیم سے رابطے کر کے ان میں پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی ہے، جس کے بعد ہی مخدوم امین فہیم اسلام آباد گئے جہاں ان کی آصف زرداری سے ملاقات متوقع ہے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور مخدوم امین فہیم کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کے حوالے سے سینیٹر رضا ربانی کے کردار پر تنقید کی جا رہی ہے کیونکہ انہیں امین فہیم کو مری اجلاس میں شرکت کا دعوت دینے کے کام پر مامور کیا گیا تھا تاہم وہ ناکام رہے۔ سینیٹر رضا ربانی مخدوم امین فہیم کے قریبی دوست تصور کیے جاتے ہیں اور پیپلز پارٹی کے حلقے میں انہیں انتہائی قابل احترام رہنما سمجھا جاتا ہے لیکن ان کی جانب سے امین فہیم کو دعوت نامہ دینے میں ناکامی کے باعث ایک بڑا تنازع کھڑا ہوگیا اور امین فہیم اور شیری رحمن کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔ اعلیٰ ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے سینیٹر رضا ربانی سے کہا تھا کہ وہ مخدوم امین فہیم سے کہیں کہ وہ بھوربن کے اجلاس میں ضرور شرکت کریں جہاں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے درمیان شراکت اقتدار کے حوالے سے اہم ترین بات چیت ہو رہی تھی۔ تاہم جب آصف زرداری نے مری میں سینیٹر رضا ربانی سے معلوم کیا کہ امین فہیم کیوں نہیں آئے تو پیپلز پارٹی کے سینیٹر نے بتایا کہ امین فہیم نجی مصروفیات کے باعث اجلاس میں شرکت نہیں کرسکتے۔ معلوم ہوا ہے کہ اس بات پر آصف زردری شدید ناراض ہوئے کیونکہ وہ اس بات پر حیران تھے کہ آخر پارٹی کا اتنا بڑا سینئر رہنما اپنی نجی مصروفیات کو ہائی پروفائل میٹنگ پر کیسے ترجیح دے سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھوربن میں ہونے والی پریس کانفرنس کے دوران جب آصف زرداری سے پوچھا گیا کہ امین فہیم کہاں ہیں تو انہوں نے رضا ربانی کی جانب سے بتائے گئے جواز کو بنیاد بناتے ہوئے پورے قصے کی ذمہ داری امین فہیم پر ڈال دی۔ اس کے بعد جب امین فہیم نے زرداری کا بیان سنا تو وہ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور انہوں نے نجی ٹی وی چینلز پر آ کر زرداری کے اس بیان کی تردید کی۔ بعد میں جب شیری رحمن نے بتایا کہ ایک اعلیٰ رہنما امین فہیم کو دعوت نامہ پہنچانے میں ناکام رہے تو جواباً امین فہیم نے کہا کہ وہ مہمان اداکار نہیں ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سینیٹر رضا ربانی کے اس کام نے آصف زرداری اور امین فہیم کے درمیان کشیدہ تعلقات میں جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا ہے۔
Monday, March 10, 2008
Ameer Hamza Shinwari. introducing new ideas in Pashto Ghazals.
Ameer Hamza Shinwari
Ameer Hamza Shinwari (Pashto: حمزه شينواری), born in Landi Kotal in the year 1907 and died in February of 1994, was a famous Pashtun poet. He Belonged to the Shinwari tribe of the ethnic Pashtuns. Ameer Hamza's work is considered a fusion between classic and modern poetry. He followed the traditional old classical poetry and blended it with the modern spirit, as well as introducing new ideas in Pashto Ghazals and took this genre of poetry to perfection. He is known as the father of Pashto Ghazals.
Early career
At a young age, Ameer Hamza Shinwari dreamt of making a career in film, he wrote the story for the first ever Pashto language film, ‘Laila Majnoon,’ in 1941. The film, which was released in Bombay before the partition, earned him a pittance. But it was during a visit to Ajmer Sharif that he first came into contact with the world of mysticism. He adopted the ‘Chishtia’ order of mysticism, following in the footsteps of Rahman Baba, and blended it with the Pashtunwali, the famous Pashtun code of conduct. The government of Pakistan also honoured him with a posthumous ‘presidential pride of performance’ award, and the NWFP government built the Hamza Baba Cultural Complex in Landi Kotal in homage to his great services to Pashtun culture.
Ameer Hamza Shinwari was also a critic and a playwriter, he wrote 200 plays for Radio Pakistan, Peshawar, a number of features, critical essays and research papers for different literary magazines and newspapers of Pakistan.
Ghazal by Ameer Hamza Shinwari
You may feel the blaze of thy checks in my heart's fire. The blaze, which can't be caught from any other fire. Why my smile reflects on thy forehead, The essence of the mirror is embarrassed and perplexed. Undoubtedly, the mirror has the quality of expression, But it never discloses the mystery of one to another. Since his amazement has a long wait for thee in the mirror, The host will surely sacrifice his life for the reflection. O' Humza! Since I ask for a mirror, we are undeniably apart, (We'll be united) if our faces reflect into one another.
This Pakistani biographical article is a stub. You can help Wikipedia by expanding it.
My beloved at night, swing his hairs, Sun came and kissed the Lights of The night, Hairs of my beloved scattered, Spring came and dead plants of jasmine were like jasmine. I said to my beloved, return my heart to me, if you don't like it
My wings will be made of falsehood, hence i am afraid, Otherwise sky is my one yard, i am that flight
Ameer Hamza Shinwari (Pashto: حمزه شينواری), born in Landi Kotal in the year 1907 and died in February of 1994, was a famous Pashtun poet. He Belonged to the Shinwari tribe of the ethnic Pashtuns. Ameer Hamza's work is considered a fusion between classic and modern poetry. He followed the traditional old classical poetry and blended it with the modern spirit, as well as introducing new ideas in Pashto Ghazals and took this genre of poetry to perfection. He is known as the father of Pashto Ghazals.
Early career
At a young age, Ameer Hamza Shinwari dreamt of making a career in film, he wrote the story for the first ever Pashto language film, ‘Laila Majnoon,’ in 1941. The film, which was released in Bombay before the partition, earned him a pittance. But it was during a visit to Ajmer Sharif that he first came into contact with the world of mysticism. He adopted the ‘Chishtia’ order of mysticism, following in the footsteps of Rahman Baba, and blended it with the Pashtunwali, the famous Pashtun code of conduct. The government of Pakistan also honoured him with a posthumous ‘presidential pride of performance’ award, and the NWFP government built the Hamza Baba Cultural Complex in Landi Kotal in homage to his great services to Pashtun culture.
Ameer Hamza Shinwari was also a critic and a playwriter, he wrote 200 plays for Radio Pakistan, Peshawar, a number of features, critical essays and research papers for different literary magazines and newspapers of Pakistan.
Ghazal by Ameer Hamza Shinwari
You may feel the blaze of thy checks in my heart's fire. The blaze, which can't be caught from any other fire. Why my smile reflects on thy forehead, The essence of the mirror is embarrassed and perplexed. Undoubtedly, the mirror has the quality of expression, But it never discloses the mystery of one to another. Since his amazement has a long wait for thee in the mirror, The host will surely sacrifice his life for the reflection. O' Humza! Since I ask for a mirror, we are undeniably apart, (We'll be united) if our faces reflect into one another.
This Pakistani biographical article is a stub. You can help Wikipedia by expanding it.
My beloved at night, swing his hairs, Sun came and kissed the Lights of The night, Hairs of my beloved scattered, Spring came and dead plants of jasmine were like jasmine. I said to my beloved, return my heart to me, if you don't like it
My wings will be made of falsehood, hence i am afraid, Otherwise sky is my one yard, i am that flight
Subscribe to:
Posts (Atom)