Wednesday, March 12, 2008

امین فہیم اور پارٹی رہنماوں کے مابین اختلافات کی بڑھٹی خلیج

پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے صدر مخدوم امین فہیم نے اپنے خلاف نامناسب رائے دینے پر مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف کو عدالتی نوٹس جاری کردیا ہے۔ خواجہ آصف نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد مخدوم امین فہیم نے صدر پرویز مشرف سے کئی ملاقاتیں کیں۔ خواجہ آصف کے مطابق مخدوم امین فہیم نے 18 فروری کو ہونے والے الیکشن کے روز بھی پرویز مشرف سے ملاقات کی۔ قبل ازیں انہوں نے اس دن بھی صدر پرویز مشرف سے ملاقات کی جس دن بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا۔ مخدوم امین فہیم نے ان الزامات کا سخت نوٹس لیتے ہوئے منگل کو خواجہ آصف کو قانونی نوٹس ارسال کردیا۔امین فہیم نے ایک انٹرویو میں خواجہ آصف کے بیان کے حوالے سے ایک سوال پر کہا کہ یہ ایشو ایسا تھا جس پر میں خاموش نہیں رہ سکتا تھا اور میں نے آصف زرداری صاحب سے کل رات کہا کہ اس قسم کا بیان تشویش ناک ہے اور آپ اس پرمسلم لیگ نواز سے بات کریں اور رات کو میری شہبازشریف صاحب سے بھی فون پر بات چیت ہوئی تھی تو میں نے ان سے کہا تھا کہ میں احتجاج کررہا ہوں کہ آپ کی پارٹی کے ایک رکن نے یہ بات کہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ محترمہ کا قتل ہو اور میں بیٹھ کر ملاقات کروں اور سیاسی باتیں کروں لہذا میں نے خواجہ آصف صاحب کو قانونی نوٹس دیا ہے حالانکہ میں ان کی بہت عزت کرتا ہوں لیکن اس سے میری ذات پر بڑا دھبہ لگ رہا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی رہنما مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ ڈیسنٹ چند آدمی میری زندگی میں ہوں گے جو اتنے رکھ رکھاؤ اور پُروقار طریقے سے جن کے یہ طریقے ہیں لیکن مجھے ان کے ردعمل پر بھی تھوڑا گلہ اس لیے ہوا کہ ان کی پرسنلٹی کے لیے وزیراعظم ہونا نا ہونا اب بہت چھوٹی بات ہے۔ اس واقعے کا آئندہ کے تعلقات پر اثر پڑے گا ۔اس کا جواب دیتے ہوئے مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں مجھے خود یہ اچھا نہیں لگا ۔میں سمجھتا ہوں خواجہ صاحب نے تھوڑی سی بے احتیاطی کی ہے اور اس کی وجہ سے پیپلزپارٹی کے اندر بھی دل رنجیدہ ہوئے ہیں لیکن جس طرح آصف علی زرداری اور میاں نوازشریف جس طرح کمیٹڈ ہیں لیکن یہ سمجھنا کہ کوئی دوریاں یا غلط فہمیاں ہیں۔ خواجہ آصف بھی کیوں کہ کھل کربات کرنے کے عادی ہیں۔ ایک انٹرویو میں مخدوم امین فہیم نے وزارت اعظمیٰ کے امیدوار کے لیے آصف زرداری کی نامزدگی کے حوالے سے اطلاعات پر پیش رفت پر کہا کہ مجھے اپنے سارے دوستوں کا بہت احترام ہے لیکن میں ان سب سے زیادہ آصف زرداری کی بات کو اہمیت دیتاہوں اور وہ بارہاکہہ رہے ہیں کہ وہ وزارت اعظمیٰ کے امیدوار نہیں ہیں لہذا مجھے ان کی بات پر یقین ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر آصف زرداری صاحب کو وزیراعظم بننا ہے تو کہہ دیں کہ مجھے وزیراعظم بننا ہے جھگڑا کس چیز کا ہے۔ انہوں نے وزارت اعظمیٰ کے لیے اپنا نام رضاکارانہ طور پر واپس لینے کے حوالے سے کہا کہ میں ایسا کیوں کروں، جب کہ یہ ایشو نہیں ہے تو میں یہ کیوں کروں۔اس سوال پر کہ آپ نے ہالہ کے مخدوم کو ناراض کردیا ہے۔ کیا یہ آپ کی پارٹی کی حکمت عملی تھی جس کا اظہار کل خواجہ آصف نے کیا ، جواب دیتے ہوئے مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا کہ اگر آپ دل کی بات پوچھیں اور اصول کی بات پوچھیں۔میرا براہ راست رابطہ نہیں ہوا خواجہ آصف سے۔ یہ باتیں اگر تھیں بھی تو اگر کوئی اعتراض ہمارے تھے بھی تو یہ پارٹی کے اندر ایک دوسرے کو بتائے جاسکتے ہیں۔ اول تو یہ استحقاق ہم نے پیپلز پارٹی کو دیدیا کہ پیپلز پارٹی اپنا وزیراعظم کا نمائندہ خود دے گی۔ اگر مشورہ بھی مانگا جاتا تو وہ بھی ٹی وی چینل پر نہیں ہوتا۔ خواجہ آصف میرے انتہائی عزیز دوست بھی ہیں، میری پارٹی کے بہت بڑے رہنما ہیں انہیں احتیاط کرنی چاہئے تھی ۔یہ احتیاطوں کا وقت ہے۔مخدوم امین فہیم منگل کی دوپہر کراچی سے اسلام آبادروانہ ہو گئے، ذرائع کے مطابق پارٹی کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات شیری رحمن اور دیگر رہنماوٴں نے مخدوم امین فہیم سے رابطے کیے اور گزشتہ دو دنوں میں ہونے والی بات چیت اور میڈیا پر آنے والی خبروں کی وضاحت کی، ذرائع کے مطابق پارٹی کے چند سینئر رہنماوٴں نے بھی پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور مخدوم امین فہیم سے رابطے کر کے ان میں پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی ہے، جس کے بعد ہی مخدوم امین فہیم اسلام آباد گئے جہاں ان کی آصف زرداری سے ملاقات متوقع ہے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور مخدوم امین فہیم کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کے حوالے سے سینیٹر رضا ربانی کے کردار پر تنقید کی جا رہی ہے کیونکہ انہیں امین فہیم کو مری اجلاس میں شرکت کا دعوت دینے کے کام پر مامور کیا گیا تھا تاہم وہ ناکام رہے۔ سینیٹر رضا ربانی مخدوم امین فہیم کے قریبی دوست تصور کیے جاتے ہیں اور پیپلز پارٹی کے حلقے میں انہیں انتہائی قابل احترام رہنما سمجھا جاتا ہے لیکن ان کی جانب سے امین فہیم کو دعوت نامہ دینے میں ناکامی کے باعث ایک بڑا تنازع کھڑا ہوگیا اور امین فہیم اور شیری رحمن کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔ اعلیٰ ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے سینیٹر رضا ربانی سے کہا تھا کہ وہ مخدوم امین فہیم سے کہیں کہ وہ بھوربن کے اجلاس میں ضرور شرکت کریں جہاں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے درمیان شراکت اقتدار کے حوالے سے اہم ترین بات چیت ہو رہی تھی۔ تاہم جب آصف زرداری نے مری میں سینیٹر رضا ربانی سے معلوم کیا کہ امین فہیم کیوں نہیں آئے تو پیپلز پارٹی کے سینیٹر نے بتایا کہ امین فہیم نجی مصروفیات کے باعث اجلاس میں شرکت نہیں کرسکتے۔ معلوم ہوا ہے کہ اس بات پر آصف زردری شدید ناراض ہوئے کیونکہ وہ اس بات پر حیران تھے کہ آخر پارٹی کا اتنا بڑا سینئر رہنما اپنی نجی مصروفیات کو ہائی پروفائل میٹنگ پر کیسے ترجیح دے سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھوربن میں ہونے والی پریس کانفرنس کے دوران جب آصف زرداری سے پوچھا گیا کہ امین فہیم کہاں ہیں تو انہوں نے رضا ربانی کی جانب سے بتائے گئے جواز کو بنیاد بناتے ہوئے پورے قصے کی ذمہ داری امین فہیم پر ڈال دی۔ اس کے بعد جب امین فہیم نے زرداری کا بیان سنا تو وہ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور انہوں نے نجی ٹی وی چینلز پر آ کر زرداری کے اس بیان کی تردید کی۔ بعد میں جب شیری رحمن نے بتایا کہ ایک اعلیٰ رہنما امین فہیم کو دعوت نامہ پہنچانے میں ناکام رہے تو جواباً امین فہیم نے کہا کہ وہ مہمان اداکار نہیں ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سینیٹر رضا ربانی کے اس کام نے آصف زرداری اور امین فہیم کے درمیان کشیدہ تعلقات میں جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا ہے۔

No comments: